Sunday, October 5, 2014







patna stampede

پٹنہ گاندھی میدان میں بھگدڑ
 دسہرہ کے تہوار میں 33 جانیں تلف
انسانی جانوں کا اتلاف ہر حال میں شدید رنج کا باعث ہوتا ہے۔ حادثات میں موتیں بہت دکھی کر جاتی ہیں۔ تہوار کے دوران اگرکوئی حادثہ ہو اور اس میں انسانی جان بھی جائے تو مزید دکھ ہوتا ہے۔ پٹنہ کے لان میں راون کا پتلا جلانے کی تقریب میں شرکت کے ساتھ دسہرہ کی خوشیاں بانٹنے کےلئے پہنچے ہوئے لوگ تقریب کے بعد ہنسی خوشی گھر واپس آنے کے عمل میں اچانک ایک حادثے کا شکار ہو گئے۔ اس کے لئے انتظامیہ ہر حال میں ذمہ دار ہے۔ مگر انتظامیہ سے زیادہ جرم ان بدتمیز اور گنوار لوگوں کا ہے جنہوں نے بھیڑ کو روند کر باہر نکلنے کی کوشش کی۔ بہار میں بھیڑ کو روندنے کی وارداتیں اس سے پہلے بھی ہوئی ہیں۔ چھٹ پوجا کے دوران بھی اس عارضی پل پر ایسی ہی بھگدڑ ہوئی تھی جس سے لوگوں کو گنگا اشنان کےلئے جانا تھا۔ بہار میں ایسی وارداتیں اکثر ہوتی ہیں۔ جب کہ بہار ہندوستان کی قدیم ترین تہذیبی رواتوں کا مرکز اور امین ہے۔ بہار اصل میں مگد ھ ہے اور مگدھ کی تہذیب تاریخ کا جز ہے۔ پٹنہ دنیا کے ان خوش قسمت اور قابل احترام شہروں میں سے ایک ہے جس کی تاریخ پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانی ہے۔ اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پٹنہ اجڑا ہو یعنی ایک سرزمین پر ایک ہی جغرافیائی رقبے کے اندر پانچ ہزار سال سے مسلسل جمع ہوتی ہوئی انسانی عقل اور ذکاوت کی دولت کا جوہر اس شہر کے باشندگان تک پہنچا ہے لیکن اپنی اس عظیم وراثت سے واقف ہونے یا اس پر ناز کرنے کے موافق اپنے برتا ¶ کو ڈھالنے میں ناکامی کانتیجہ ہے کہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب اپنی بد تہذیبی کی وجہ سے زندہ انسانوں کو روند کر فنا کردینے کی وحشیانہ حرکت کی مرتکب ہورہی ہے۔ پٹنہ میں انسانی جانوں کا یہ اتلاف انتہائی دکھ کی بات ہے۔ انتظامیہ کی غلطی یہ ہے کہ اس نے پچاس ہزار لوگوں کے نکلنے کےلئے صرف ایک گیٹ بنوایا جس کا رخ ایگزیویشن روڈ کی طرف تھا اور بھیڑ کو کنٹرول کرنے کی کوئی میکا نزم نہیں رکھی جب کہ سابقہ تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے انتظامات زیادہ چوکسی سے کرنے کی ضرورت تھی۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ کچھ لوگوں نے وہاں پر یہ افواہ بھی اڑا دی کہ بجلی کا زندہ تار گرگیا ہے۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ لوگ بھیڑ میں کسی خطرے سے واقف ہونے کے بعد فورا ہی سراسمیگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایسی کسی بھیڑ میں تندرست آدمی اپنی حفاظت کر لیتا ہے لیکن کمزور عورتیں اور بے بس بچے اور ضعیف لوگ بھیڑ کی زد میں آجاتے ہیں۔ پٹنہ پولیس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو ڈھونڈ نکالے جنہوں نے وہاں پر افواہ بازی کی۔ اور ان کو عبرتناک سزا دے کیونکہ ان کے غیر ذمہ دارانہ رویے نے 33ہنستی کھیلتی جانوں کو موت کے منہ میں ڈھکیل دیا۔ مشکل یہ ہے کہ اس بھگدڑ کے ایک دن بعد بھی لوگ اپنے عزیزوں کوڈھونڈ رہے ہیں اورتلاش نہیں کرپارہے ہیں ۔ مثال کے طور پر 16سال کی ایک لڑکی پرینکا لا پتہ ہے اور اس کا بھائی روی اسے ہر جگہ ڈھونڈ رہا ہے اور کہیں تلاش نہیں کرپارہا ہے ۔ پرینکا نہ تو اسپتال میں ہے نہ مریضوں کی فہرست میں اس کا نام ہے نہ اسے اس کابھائی ٹھنڈا گھر میں تلاش کرپایا ہے۔ یہ لڑکی اپنی جن سہیلیوں کے ساتھ لان میں راون کا پتلا جلتے دیکھنے گئی تھی ان سے بھگدڑ کے دوران بچھڑ گئی۔ صرف پرینکا لا پتا نہیں ہے پٹنہ پولیس کا کہنا ہے کہ تقریبا ایک درجن لوگ تلاش کئے جارہے ہیں ۔ ان میں سے کچھ خوش قسمت ہیں جو اپنے لوگوں تک واپس پہنچ گئے مثال کے طور پر چار برس کی چاہت کماری کو ایک مسلمان عورت نے کسی طرح بچا لیااور اپنے پاس اس وقت رکھا جب تک کہ اس کے والدین بچے کے پاس نہیں پہنچ گئے۔ چاہت کماری کو اس کا باپ رات بھر ڈھونڈتا رہا تھا۔ ریشما نے اسے پولیس کی اطلاع دے کر اپنے پاس رکھا اس کا انتظار کیا کہ اس کے والدین آکر لے جائیں۔ پٹنہ میڈیکل کالج اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ سے لے کرتھانوں اور ٹھنڈا گھر تک لوگ اپنے عزیزوں کو ڈھونڈ رہے ہیں اور تلاش نہیں کرپارہے ہیں۔ حکومت بہار کو گاندھی میدان المیہ کے بعد اس بات کا عہد کرلینا چاہئے کہ آئندہ کسی اجتماع کی صورت میں نہ تو وہ لفنگوں کو افواہ پھیلانے دے گی اورنہ ہی انتظام میں کوئی ایسی کوتاہی کرے گی جس سے انسانی جانوں کا اتلاف ہوسکے۔ پچاس ہزار کی بھیڑ کوئی ایسی بھیڑ نہیں ہے جس کا انتظام کرنے میں ایک ریاست کی انتظامیہ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔ یہ آخری واردات ہونی چاہئے۔اور اس واردات کی ذمہ داری بھی ضلع انتظامیہ کو قبول کرنی چاہئے کیونکہ اس کی نااہلی کے سوا اور کسی چیز نے ان 33لوگوں کو لقمہ اجل نہیں بنایا۔ 11