Tuesday, March 31, 2015

Crisis in Aam Aadmi Party , a product of ideological gap.

عام آدمی پارٹی کا داخلی بحران 
دہلی کی ترقی پر اثر پڑنے کا اندیشہ 
[اشہر ہاشمی]
اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی گو کہ آج ایک اہم سیاسی طاقت ہے اور اسمبلی میں صرف تین سیٹیں چھوڑ کر تمام سیٹیں اسی پارٹی کے نمائندوں سے بھری ہو ئی ہیں ۔ عام آدمی پارٹی نے دسمبر 2013میں پندرہ سال سے اقتدار میں جمی ہو ئی شیلا دکشت کی کانگریس کو کنارے لگا دیا تھا اور فروری 2015میں بی جے پی کی مسلسل فتوحات کا سلسلہ روک دیا ہے ۔ یعنی اس پارٹی کو عوامی تائید اس حد تک حاصل ہے کہ دہلی میں کسی اور سیاسی جماعت کے اثرات ہونے کے باوجود رائیگاں ہو جا تے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ دہلی سے بی جے پی کا صفایا ہو گیا ، یا کانگریس ختم ہو گئی ۔ لو ک سبھا کی ساتوں سیٹوں پر بی جے پی ہے ۔ چاروں میو نسپل کارپوریشن بی جے پی کے پاس ہے جن میں کانگریسی ممبر بھی ہے ۔ اس کے باوجود دہلی اسمبلی کا الیکشن بھر پور سے زیادہ کیجریوال کے ہاتھ میں آ یا ۔ عوامی تائید کی ایسی مثال کم ملتی ہے ۔ مغربی بنگال میں ایک دور تھا جب بایاں محاذ کی میٹنگ میں سی پی ایم ، سی پی آئی ، آ ر ایس پی اور فاروڈ بلاک کے لیڈران بیٹھ کر اس پر غور کر تے تھے کہ اس ریاست کی 42لوک سبھا سیٹوں میں سے چار سیٹیں بھی کانگریس کو کیوں ملیں ؟عام آدمی پارٹی میں اس پر غور نہیں ہوا کہ 70میں 3سیٹیں بی جے پی کیسے نکا ل لے گئی ؟ جشن منایا گیا ۔ جشن کا ہے کا ؟جیت کا ۔ عوامی تائید کا ۔ اقتدار میں آ نے کا ۔ استعفیٰ دے کر اسمبلی توڑنے اور آئینی بحران پیدا کرنے کے باوجود عوام کی طرف سے معافی کے ساتھ زیادہ بڑھی ہوئی تائید حاصل ہو نے کا ۔ بڑھے ہو ئے ووٹ فیصد کے سیٹوں میں تبدیل ہو نے کا ۔ جشن منانا بھی چاہئے تھا ۔ 
لیکن عام آدمی پارٹی صرف عوامی بھیڑ کے بل پر اقتدار میں بھی ہے اور اپنا کام بھی کر رہی ہے ۔ اروند کیجریوال کی پارٹی میں دہلی والوں سے جو وعدے کئے ہیں ان کو نبھانے کے لئے بہت پیسوں کی ضرورت ہو گی اور پیسوں کا حصول مرکز اور نیتی کمیشن کا محتاج ہے ۔ دہلی کا اپنا آمدنی کا ذریعہ ہے ۔ ریونیو ، ٹیکس اور دیگر طریقوں سے جو مالیات ریاست خود پیدا کرتی ہے وہ پیدا ہوتی رہے گی لیکن سبسڈی دینے یا قیمتیں کم کرنے کے لئے الگ سے راحت کی ضرورت ہے ۔ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے دباؤ میں آ کر ہندوستان کو مالی خسارہ کم کرنے کے لئے لا زمی طور پر جو اقدامات کر نے ہیں ان میں کھاد سے لے کر رسوئی گیس تک پر سے سبسڈی اٹھانے کے مرحلے سے گزرنا ہے ۔ یہ اقتصادی اصطلاحات منموہن سنگھ کے دور حکومت سے چل رہے ہیں ۔ ٹھیک سے دیکھا جا ئے تو ان اصطلاحات کا سلسلہ ڈاکٹر منمو ہن سنگھ نے 1991میں پی وی نرسمہا راو کی کا بینہ میں رہتے ہو ئے وزیر خزانہ کی حیثیت سے شروع کر دیا تھا ۔ بہت زیادہ عوامی مقبولیت پسندی کے مظاہرے کے باوجود ڈاکٹر سنگھ نے اقتصادی اصطلاحات کا سلسلہ نہیں روکا ۔ البتہ اسی کے ساتھ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور ادارہ جاتی غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے ہموار کئے ۔ 
شیلا دکشت حکومت کے آخری دنوں میں لازمی اشیاء کی قیمتیں اس قدر بڑھی تھیں کہ عوام سچ مچ پریشان ہو رہے تھے ۔ ٹھیک سے دیکھا جا ئے تو 2008میں کامن ویلتھ گیمس کے لئے انفرا اسٹرکچر تیار کرنے کے مرحلے کے ساتھ ہی دہلی میں مہنگائی دن دونی ترقی کر نے لگی ۔ ایک وقت ایسا بھی آ یا جب تقریبا ہر دن دہلی میں کسی نہ کسی لازمی شے ، یا خدمت کی قیمت بڑھانے کا سلسلہ جا ری رہا ۔ اسی کے ساتھ بد عنوانی کے معاملات ابھرے ۔ کانگریس کی قیادت والی ترقی پسند اتحاد حکومت کا دور دویم ایک طرح سے بد عنوانی کا دور بنا کر رکھ دیا گیا ۔ اس میں مارکیٹ فورسیز کا بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ تھا ۔ دہلی کا عام آدمی یہ سوال ضرور پوچھتا ہے کہ 4دسمبر 2013کو اچانک دہلی میں پھل ، سبزی ،انڈا ، گوشت جیسی روز کے استعمال کی چیزوں کی قیمت اچانک کیوں گر گئی ؟
بی جے پی وزارت عظمیٰ اور پارٹی قیادت دونوں کے گجرات منتقل ہو نے کی وجہ سے دہلی میں اچانک کمزور ہو ئی ۔ 10جنوری کی ریلی منعقد نہ ہوتی تو نریندر مودی اور امت شاہ کو اس کا اندازہ ہی نہ ہوتا کہ دہلی میں تنظیم کی سطح پر پارٹی کتنی کمزور ہے ۔ پارٹی میں نئی جان ڈالنے کے لئے بی جے پی نے کوششیں شروع کی اور ہر کوشش ایک غلطی کی شکل میں اس کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو تی چلی گئی ۔ دہلی اسمبلی کے وجود میں آ نے کے بعد سے کانگریس اور بی جے پی نے اقتدار آ پس میں اس طرح بانٹ رکھا تھا کہ کسی تیسری طاقت کی ضرورت محسوس ہو تی تھی ۔ دو الیکشن پہلے ایک بار ایسا لگا تھا کہ شاید مایاوتی کی بہو جن سماج پارٹی اس خلاء کو پر کر سکتی ہے یا تیسرا متبادل بنا سکتی ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ملی ۔ تیسرے متبادل کی کمی اروند کیجریوال کی پارٹی عام آدمی پارٹی نے پوری کی لیکن اب حالات ایسے بن رہے ہیں جن میں لگتا ہے کہ صرف عوامی تائید یا 70میں 67سیٹیں کسی پارٹی کو متحد رکھنے کی اہل نہیں ہے ۔ 
پارٹی کا اتحاد بنیادی طور سے نظریات کی بنا پر ہوتا ہے ۔کیجریوال کی پارٹی کے پاس عوام کے دکھ درد میں، ان کی مشکلات میں حصہ دار بننے کا جذبہ تو ہے لیکن کوئی ایسا نظریاتی بندھن نہیں جو اس کے تمام پارٹی لیڈروں کو آپس میں جوڑتا ہو ۔ بہت سے امور ہیں جن پر عام آدمی پارٹی کا موقف واضح نہیں ہے ۔ ابھی ضرورت اس بات کی تھی کی پارٹی اپنی میٹنگوں میں نظریہ سازی کا کام کرتی ہے ۔ ہندوستان ، ہندو تو ، ہندو ، سیکولرزم ، سوشلزم کی سمجھ پکی کرتی ۔ کشمیر کے سلسلے میں، کیرالہ کے سلسلے میں ،تقررات کے سلسلے میں ، بر طرفی کے سلسلے میں اس کا ایک موقف ہو تا ۔ مودی سرکار آ نے کے بعد کے 300دنوں میں جس طرح کی کھلم کھلا فرقہ واریت اپنا ننگا رقص کرتی رہی ہے اس کے سلسلے میں کیجریوال کا موقف سامنے نہیں آ یا ہے ۔ عام آدمی پارٹی اقلیتوں کے تحفظ ، مذہبی اور لسانی گروپوں کی ترقی کے بارے میں بھی کچھ بول نہیں پائی ہے ۔ وہ جو ایک پورا چہرہ ابھرتا ہے وہ ابھی نہیں ابھرا ہے ۔ بد عنوانی واحد موضوع نہیں ہے جس کے سلسلے میں ایک بڑا موقف اختیار کر کے حکومت کا کام کاج چلایا جا ئے ۔ اس کے علاوہ بد عنوانی ہندوستانی معاشرے کی ذہنیت اور فکر و عمل میں اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ اس کو ختم کر نا آ سان بھی نہیں ہے ۔ جہاں پورا سسٹم یعنی نظام بد عنوانی میں گلے گلے ڈوبا ہو وہاں بد عنوانی کے خلاف تحریک کے دو چار برسوں میں کامیاب ہو جا نے کا کوئی یقین نہیں ہوتا ۔ ضروری یہ ہے کہ بد عنوانی کے خلاف جنگ جنتر منتر پر اور پولنگ بوتھوں میں لڑنے سے زیادہ بچوں کے ذہنوں میں لڑی جا ئے ۔ کیونکہ اس معاشرے میں پلنے والا بچہ بد عنوانی کو عیب نہیں مانتا بلکہ وہ اسے اپنے والدین کا ہنر سمجھتا ہے جس سے وہ اپنی مقررہ اوقات سے باہر نکل کر بچوں کی پرورش و پرداخت اور ان کے عیش وآرام پر خرچ کرتے وقت پیشانی پر شکن نہیں لا تے ۔ بد عنوانی کے خلاف لڑائی میں جو بھیڑ انا ہزارے یا اروند کیجریوال کے ساتھ رہی ہے وہ بھیڑ انہیں خاندانوں کے نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کے والدین بد عنوانی کے ذریعہ وہ مملکت بنانے میں کامیاب ہو ئے جن کے بادشاہ ہو نے کے جذبے سے سرشار نوجوان نسل سماج سے اپنا مکالمہ پوری طاقت کے ساتھ کر رہی ہے ۔ عام آدمی پارٹی کو اب ایک بد عنوانی مخالف تنظیم سے آگے بڑھ کر حکمران پارٹی کی حیثیت سے اپنے نظریات طے کرنے ہیں اور اپنی ترجیحات طے کرنی ہے اور اس عمل میں پوری پارٹی کے اندر بحث ومباحثہ سے جو ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو گی وہی پارٹی کوجو ڑ کے رکھے گی ۔ یہ بات عام آدمی پارٹی اس کے لیڈر اروند کیجریوال اور اس کے نظریہ ساز اذہان جس قدر جلد سمجھ لیں پارٹی کے لئے بہتر ہے ۔ بصورت دیگر ایک ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو سکتا ہے جس کی ذمہ داری کسی پر نہیں ہو گی لیکن جس کا نتیجہ سب کو بھوگنا ہوگا 

QASID ALL PAGES 01/04/2015







Monday, March 30, 2015

Ten years of Dr Manmohan Singh regime. Ashhar Hashimi ,QASID

منمو ہن سنگھ کا دوراقتدار
ملک کی تاریخ کا سنہرا باب 
[اشہر ہاشمی]
ڈاکٹر منموہن سنگھ کا مئی 2004سے مئی 2014تک کا دس سالہ دور اقتدار ایک سے زائد طریقوں سے تاریخ ساز دور رہا ہے ۔ گو کہ ان دس برسوں کو مہنگا ئی اور بد عنوانی کے حوالے سے یاد رکھنے اور تاریخ کا حصہ بنا نے کی کو شش کی جا رہی ہے لیکن یہ کو ئی مستحسن فعل نہیں کیونکہ ڈاکٹر سنگھ نے وزیر اعظم کی حیثیت سے جو دس سال گزارے ہیں وہ عالمی برادری میں ہندوستانی کا سر فخر سے بلند کرنے کے دس سال ہیں ۔ تب کی اپوزیشن اور اب کے حکمران طبقے کی طرف سے کانگریس ، اس کی صدر اور اس کے وزیر اعظم سمیت پورے بر سر اقتدار ٹولے کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے کر نے کی کو شش کے درمیان یہ بات زیادہ ابھر کر سامنے آ تی ہے کہ منمو ہن سنگھ ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسے نکتہ رس ، دور بین اور لائق انتظام کا ر کی حیثیت سے یاد کئے جا ئیں گے جنہوں نے ہندوستان کو بدلتی ہو ئی دنیا سے ہم آ ہنگ کر نے اور اقوام عالم میں سر بلند ہو نے کے لا ئق منصوبہ بندی کی اور 1991سے 2014تک اس پر مسلسل عمل کر کے ملک کو اس مقام پر لے آ ئے جہاں کسی بھی عالمی اقتصادی بحران کی چوٹ ہندوستان تک پہنچتے پہنچتے کمزور پڑ جا ئے ۔ 
ملکی معیشت کو عالمی معیشت سے ہم آہنگ کر نے کا عمل گلو بلا ئزیشن یا معیشت کی عالم گیری منمو ہن سنگھ نے ساختیا تی تبدیلیوں کے ساتھ 1991میں پی وی نرسمہا راو کی کا بینہ میں وزیر خزانہ رہتے ہو ئے شروع کیا تھا ۔ اس وقت یہ اصطلاحیں بھی تمام ہندوستانیوں کی سمجھ سے بالا تھیں اور اس پر یقین کر نے والے کم تھے کہ ہندوستانی منڈی کو عالمی منڈی سے جوڑنے اور غیر ملکی سرمایہ کو ہندوستان کی طرف راغب کر نے کی یہ تد بیریں ہندوستان کو تنگی سے نجات دلا کر ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لا نے میں مددگار ہوں گی ۔ 
سیاسی مصلحت جو ئی اور جماعتی مجبوری کسی بھی حریف سیاستدان کو چا ہے اپنے ضمیر کی آ واز دبا کر جتنا بھی سیاسی جھوٹ بولنے کی تحریک دے پورا ہندوستان ا س کا معترف ہے کہ آ ج بر آمدات ، مینو فیکچرنگ اور خدمات کے شعبے میں جو بھی ترقی نظر آ رہی ہے وہ ڈاکٹر منمو ہن سنگھ کی عملی کوششوں کا مثبت نتیجہ ہے ۔ 
اقتصادی صورت حال میں استحکام :یہ سیاست کی بد نیتی اور بد بختی ہے کہ ڈاکٹر منمو ہن سنگھ جیسے شریف النس اور صاحب علم انسان کا جا ہلوں سے پالا پڑا ۔ پارلیمنٹ میں اقتصادی امور میں بحث کے دوران ایسے لوگوں کی دلیلوں پر بھی ، جنہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ پیسہ کیسے گھومتا ہے ، کیسے گھوماتا ہے ، منموہن سنگھ صرف مسکرا کر رہ جا تے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ وہ ہندوستانی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے جس سطح پر کام کر رہے ہیں اس سطح پر فکری ، ذہنی اور علمی وعملی اعتبار سے پہنچے بغیر معاشیات اور اقتصادیات کے پہلوؤں کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا ۔ 
منموہن سنگھ کو وزیر اعظم کے عہدے پر رہتے ہو ئے ان کا قد چھوٹا کر نے کے لئے جتنی چھوٹی باتیں کہی جا سکتی تھیں کہی گئیں ۔اقتدار کے دو مراکز کی بات آ ئی ، شیڈو وزیر اعظم کا ذکر بھی آ یا ، سپر کابینہ کی اصطلاح بھی چلی ، کمزور وزیر اعظم بھی کہا گیا ۔ یہاں تک کہ آ ج کے ایک مرکزی وزیر اور تب کے بی جے پی کے ترجمان روی شنکر پرساد نے ایک موقع پر کہا کہ ’’منمو ہن سنگھ اتنے بڑے ما ہر معاشیات نہیں ہیں جتنا بڑا انہیں بنا کر دکھا یا جا رہا ہے اور انہیں اتنا بڑا سیا ستدان نہیں ما نا جا تا جتنے بڑے سیاستدان وہ ہیں ۔‘‘اس تبصرے میں چھپی ہو ئی با ت یہ ہے کہ منمو ہن سنگھ گھا گ سیاست دان اور کمزور ماہر معاشیات ہیں ۔ گھا گ سیاستدان یوں کہ وہ کانگریسی حکومت میں اپنی جوڑ توڑ کی وجہ سے وزیر اعظم کی کرسی پر مسلسل موجود ہیں اور معاشیات پر ان کی گرفت ویسی نہیں جیسی سمجھی جا تی ہے ۔ ایسے بیانات تاریخ میں غیر ذمہ دارانہ بیانات اور سیاست کی بازی گری سے زیادہ کے حوالے سے نہیں جا نے جا ئیں گے ۔ 
ڈاکٹر منمو ہن سنگھ کے عظیم اور لائق تقلید ماہر معاشیات ہو نے کا سب سے بڑا ثبو ت یہ ہے کہ 2008کے عالمی اقتصادی بحران کے دوران امریکہ اور یوروپی یو نین خاص کر بر طانیہ جیسی بڑی عالمی طاقتیں بھی رہنما ئی کے لئے وزیر اعظم ہند کی طرف دیکھ رہی تھیں ۔ 2008کے اقتصادی بحران کی ضرب محسو س ہونے سے بہت پہلے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت نے اپنے ملک کے اندر بینکوں کی لیکوی ڈی ٹی بڑھا نے کے لئے یعنی حساب بے باک کر نے اور نقد رقم واپس کر نے کی اہلیت میں اضافہ کر نے کے لئے بینکوں کو ایک بڑا تقویتی پیکج دے دیا تھا ۔ یہ 2008کا اقتصادی بحران یوروپ اور امریکہ یعنی ترقی یافتہ ملکوں میں ایسی تباہی پھیلا گیا کہ ان کے بڑے بڑے بینک دیوالیہ ہو گئے مگر ہندوستان کا اقتصادی اور بینکاری نظام اپنی جگہ پوری استقامت اور استحکام کے ساتھ جا گزیں رہا ۔ 
اقلیتوں کے لئے فلاحی تدبیریں :ڈاکٹر منمو ہن سنگھ کا دس سال کے دور اقتدار کا ایک ایک کارنامہ سنہرے حرفوں میں لکھے جا نے کے لائق ہے مگر مسلمانوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ان کی طرف سے کبھی کوئی نمائندہ وفد ڈاکٹر منمو ہن سنگھ کا ذاتی شکریہ ادا کرنے کے لئے ان سے ملنے نہیں گیا ۔ نہ ہی کھل کر ان کی ستائش ہو ئی ، نہ ہی کبھی کسی کو یہ توفیق ہو ئی کہ وہ اقلتیوں کے لئے ڈاکٹر منمو ہن سنگھ کے کام کا تجزیہ کر کے کسی نتیجے پر پہنچے ۔ ڈاکٹر سنگھ پر تنقید میں تو سب شامل رہے لیکن اقلیتوں کے لئے خاص کر مسلم اقلیت کے لئے انہوں نے جو رویہ اختیار کیا اور سرکاری مشنری کو اس معاملے میں حساس بنا نے کے لئے جو اقدامات کئے ان کی ستائش مسلم حلقوں میں سرے سے نہیں ہو ئی لیکن ہندو تو کے حامیوں کے ہاتھ میں ایک اوزار ایسا آ گیا جس سے انہوں نے منموہن سنگھ کو نشانہ بنانے کی ہر ممکن کو شش کی ۔ 
ان کے اس بیان پر سنگھی تنظیموں نے بڑا شور مچا یا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے ۔ وزیر اعظم منمو ہن نے نئی دہلی میں دسمبر 2006میں قومی ترقیاتی کو نسل کی 52ویں میٹنگ سے خطاب کر تے ہو ئے کہا کہ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے لئے ہم جو منصوبے بنا ئیں ملک کے وسائل پر ان منصوبوں کا پہلا دعویٰ ہو نا چا ہئے تاکہ ترقی کے فوائد مسا ویانہ ڈھنگ سے مسلمانوں تک بھی پہنچیں ۔ ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ ہمیں اختراعی منصوبے وضع کر کے اس بات کو یقینی بنا نا ہو گا کہ اقلیتیں خاص کر مسلم اقلیت ترقی کے ثمرات مساوی طور پر حاصل کر نے کے لئے با اختیار بن سکیں ۔ وسائل پر ان کا دعویٰ پہلا دعویٰ ہونا چا ہئے ۔ انہوں نے جو کچھ بھی کہا وہ صرف اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ڈاکٹر منمو ہن سنگھ کے ذہن میں مسلمانوں کی فلاح کا ایک خاکہ تھا اور وہ اس دل سے قبول کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو ملکی وسائل میں ان کا حصہ نہیں ملا لہٰذا وسائل میں پہلا حق اب ان کا بنتا ہے ۔ یہ ڈاکٹر منمو ہن سنگھ کی فکر کے ایک نیک اور نمایاں گوشے کی نما ئندگی کرنے والا بیان ہے ۔ 
ڈاکٹر منمو ہن سنگھ نے مسلمانوں کی سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور مالی حیثیت کا مکمل جائزہ لینے کے لئے دہلی ہائی کورٹ سے ریٹائرڈ جسٹس راجیندر سچر کی قیادت میں ایک کمیٹی بنا ئی ۔ سچر کمیٹی نے ملک کے مسلمانوں کی پوری حالت کا جائزہ لے کر 450صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ پیش کر دی جس میں پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر اس کا اعتراف کیا گیا کہ ہندوستانی مسلمان کی حالت دلتوں سے بھی بد تر ہے ۔ اس رپورٹ پر عمل درآمد ہوا اور نہ صرف مرکز میں بلکہ ریاست میں بھی مسلمانوں کی حالت سدھارنے کے لئے اقدامات کئے گئے ۔ یہاں پھر یہ بات بہت نمایاں حیثیت کی حامل بن کر ابھر تی ہے کہ مسلمانوں نے ڈاکٹر منمو ہن سنگھ کا شکریہ ادا نہیں کیا جب کہ یہ کام ایک بڑا کا م تھا ۔ کہنے کو تو پہلے سے گوپال سنگھ ہائی پینل رپورٹ اور گجرال کمیٹی کی رپورٹ بھی فائلوں میں بند ہے لیکن جس بڑے پیمانے پر جسٹس سچر نے مسلمانوں کی مجموعی حالت کو سمجھنے کی کوشش کی وہ ڈاکٹر سنگھ کی ذاتی کوشش کے بغیر ممکن نہیں تھی ۔ ڈاکٹر منمو ہن سنگھ کے دور میں سماجی امن بھی رہا ۔ مئی 2014میں بی جے پی کی سربراہی والی قومی جمہوری اتحادکی نریندر مودی حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سنگھ اور اس کی تمام دیگر ہمشیر ، ذیلی اور محاذی تنظیمیں جس طرح بے دردی اور بے رحمی سے مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے پیچھے پڑی ہیں اور جس طرح ڈھی ٹائی اور بے شرمی کے ساتھ جارحانہ اور اشتعال انگیز بیان بازی کا سلسلہ چل رہا ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ڈاکٹر سنگھ کے اقتدار کے دس برسوں میں فرقہ پرستوں یا فرقہ وارا نہ جنون میں مبتلا افراد اور اداروں ، تنظیموں اور کارکنوں کو حکومت نے بے بس کر رکھا تھا ۔ ڈاکٹر سنگھ کے دور میں سماجی امن ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر موجود رہا جب کہ مودی سرکارمیں یہ امن اس حد تک غارت ہو چکا ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق نئی حکومت کے اقتدار کے پہلے 300دنوں میں فرقہ وارانہ جارحیت ، تصادم ،تناو اور اشتعال انگیزی کے 2200واقعات ہو چکے ہیں ۔ ڈاکٹر سنگھ کا دور اقتدار ان چیزوں سے پاک تھا کیونکہ ان کی اپنی فکر ہمہ گیر تھی اور انہوں نے اپنے اقدام کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ ملک کی اقلیتوں کو خاص کر مسلمانوں کو آبادی کا ایک لائق احترام حصہ سمجھتے ہیں ۔ 
منمو ہن سنگھ نے اپنے دور اقتدار میں غریبوں کا خاص دھیان رکھا ۔ یہ ماہر اقتصادیات ہونے کا ہی کمال تھا کہ ان کے ذہن میں یہ بات آ ئی کہ اگر سرکاری اسکیموں پر ہونے والے خرچ کو منضبط کرتے ہو ئے دیہی عوام کو کم سے کم ایک خاندا ن میں ایک فرد کے لئے 100دن کی ملازمت کا اہتمام کر دیا جا ئے تو وہ تنگی سے نکل آ ئیں گے ۔ سال میں 100دن کی ملازمت کی ضمانت کے ساتھ نریگا لا یا گیا ۔قومی دیہی روزگار ضمانت قانون (نریگا)نے دیہی ہندوستان کی شکل بدل دی کیونکہ اس اسکیم کے آ نے کے بعد دیہات میں رہنے والے محنت کش غریب آ دمیوں کو سال میں 100دن کی نوکری کی ضمانت کے ساتھ اتنا اختیار حاصل ہو گیا کہ وہ مقامی زمین داروں یا مہاجنوں کے سامنے جھکنے سے گریز کرنے لگے ۔ نریگا کو ، جسے بعد میں مہاتما گاندھی کے نام سے منسوب کر دیا گیا ، ہندوستان کے بڑے فلاحی پروگراموں میں ہمیشہ شامل کیا جا ئے گا ۔ شروع میں اسے صرف 100اضلاع میں نافذ کیا گیا تھا ، بعد میں دوسرے تقریبا تمام اضلاع شامل کر لئے گئے اور اس اسکیم کی بدولت دیہی عوام کو اتنی طاقت ملی کہ وہ کسمپرسی کے عالم سے نکل کر اپنی زندگی کو ایک منصوبہ بند ڈھنگ سے چلانے کے لائق ہو گئے ۔ 
ڈاکٹر سنگھ کا عہد حقوق پر مبنی قوانین بنانے کے حوالے سے بھی یاد کیا جا ئے گا ۔ ان سے پہلے کی کسی حکومت نے اس پر غور نہیں کیا تھا کہ عوام کو کچھ حقوق قانونی طور پر ملنے چاہئیں ۔ انہوں نے نہ صرف سوچا بلکہ اس پر عمل کیا اور ایسے متعدد قوانین بنا ئے جو آ نے والے وقتوں میں ہندوستانی عوام کو مسلسل فیض پہنچاتے رہیں گے ۔ جیسے مثال کے طور پر حق اطلاعات قانون بنا یا گیا ۔ گھریلو تشدد کی روک تھام کا قانون بنا یا گیا ۔تعلیم کے حق کا قانون بنا ۔ ایک قانون حق خوراک کو یقینی بنانے سے متعلق ہے ۔ یہاں تک کہ تحویل اراضی بل بھی جا تے جا تے منظور کرا لیا گیا جس کے ذریعہ اپنی زمینیں سرکاری تحویل جا نے کی صورت میں حرجانہ کا دعویٰ کرنے کا حق بھی کسانوں اور دیہی عوام کو دیا ۔ حقوق پر مبنی قوانین کے لئے بھی منمو ہن سنگھ کے اقتدار کے دس برس یا د رکھے جا ئیں گے ۔ 
ٓAshhar Hashimi
pensandlens@gmail.com

Qasid 31 March 2015