عام آدمی پارٹی کا داخلی بحران
دہلی کی ترقی پر اثر پڑنے کا اندیشہ
[اشہر ہاشمی]
اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی گو کہ آج ایک اہم سیاسی طاقت ہے اور اسمبلی میں صرف تین سیٹیں چھوڑ کر تمام سیٹیں اسی پارٹی کے نمائندوں سے بھری ہو ئی ہیں ۔ عام آدمی پارٹی نے دسمبر 2013میں پندرہ سال سے اقتدار میں جمی ہو ئی شیلا دکشت کی کانگریس کو کنارے لگا دیا تھا اور فروری 2015میں بی جے پی کی مسلسل فتوحات کا سلسلہ روک دیا ہے ۔ یعنی اس پارٹی کو عوامی تائید اس حد تک حاصل ہے کہ دہلی میں کسی اور سیاسی جماعت کے اثرات ہونے کے باوجود رائیگاں ہو جا تے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ دہلی سے بی جے پی کا صفایا ہو گیا ، یا کانگریس ختم ہو گئی ۔ لو ک سبھا کی ساتوں سیٹوں پر بی جے پی ہے ۔ چاروں میو نسپل کارپوریشن بی جے پی کے پاس ہے جن میں کانگریسی ممبر بھی ہے ۔ اس کے باوجود دہلی اسمبلی کا الیکشن بھر پور سے زیادہ کیجریوال کے ہاتھ میں آ یا ۔ عوامی تائید کی ایسی مثال کم ملتی ہے ۔ مغربی بنگال میں ایک دور تھا جب بایاں محاذ کی میٹنگ میں سی پی ایم ، سی پی آئی ، آ ر ایس پی اور فاروڈ بلاک کے لیڈران بیٹھ کر اس پر غور کر تے تھے کہ اس ریاست کی 42لوک سبھا سیٹوں میں سے چار سیٹیں بھی کانگریس کو کیوں ملیں ؟عام آدمی پارٹی میں اس پر غور نہیں ہوا کہ 70میں 3سیٹیں بی جے پی کیسے نکا ل لے گئی ؟ جشن منایا گیا ۔ جشن کا ہے کا ؟جیت کا ۔ عوامی تائید کا ۔ اقتدار میں آ نے کا ۔ استعفیٰ دے کر اسمبلی توڑنے اور آئینی بحران پیدا کرنے کے باوجود عوام کی طرف سے معافی کے ساتھ زیادہ بڑھی ہوئی تائید حاصل ہو نے کا ۔ بڑھے ہو ئے ووٹ فیصد کے سیٹوں میں تبدیل ہو نے کا ۔ جشن منانا بھی چاہئے تھا ۔
لیکن عام آدمی پارٹی صرف عوامی بھیڑ کے بل پر اقتدار میں بھی ہے اور اپنا کام بھی کر رہی ہے ۔ اروند کیجریوال کی پارٹی میں دہلی والوں سے جو وعدے کئے ہیں ان کو نبھانے کے لئے بہت پیسوں کی ضرورت ہو گی اور پیسوں کا حصول مرکز اور نیتی کمیشن کا محتاج ہے ۔ دہلی کا اپنا آمدنی کا ذریعہ ہے ۔ ریونیو ، ٹیکس اور دیگر طریقوں سے جو مالیات ریاست خود پیدا کرتی ہے وہ پیدا ہوتی رہے گی لیکن سبسڈی دینے یا قیمتیں کم کرنے کے لئے الگ سے راحت کی ضرورت ہے ۔ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے دباؤ میں آ کر ہندوستان کو مالی خسارہ کم کرنے کے لئے لا زمی طور پر جو اقدامات کر نے ہیں ان میں کھاد سے لے کر رسوئی گیس تک پر سے سبسڈی اٹھانے کے مرحلے سے گزرنا ہے ۔ یہ اقتصادی اصطلاحات منموہن سنگھ کے دور حکومت سے چل رہے ہیں ۔ ٹھیک سے دیکھا جا ئے تو ان اصطلاحات کا سلسلہ ڈاکٹر منمو ہن سنگھ نے 1991میں پی وی نرسمہا راو کی کا بینہ میں رہتے ہو ئے وزیر خزانہ کی حیثیت سے شروع کر دیا تھا ۔ بہت زیادہ عوامی مقبولیت پسندی کے مظاہرے کے باوجود ڈاکٹر سنگھ نے اقتصادی اصطلاحات کا سلسلہ نہیں روکا ۔ البتہ اسی کے ساتھ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور ادارہ جاتی غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے ہموار کئے ۔
شیلا دکشت حکومت کے آخری دنوں میں لازمی اشیاء کی قیمتیں اس قدر بڑھی تھیں کہ عوام سچ مچ پریشان ہو رہے تھے ۔ ٹھیک سے دیکھا جا ئے تو 2008میں کامن ویلتھ گیمس کے لئے انفرا اسٹرکچر تیار کرنے کے مرحلے کے ساتھ ہی دہلی میں مہنگائی دن دونی ترقی کر نے لگی ۔ ایک وقت ایسا بھی آ یا جب تقریبا ہر دن دہلی میں کسی نہ کسی لازمی شے ، یا خدمت کی قیمت بڑھانے کا سلسلہ جا ری رہا ۔ اسی کے ساتھ بد عنوانی کے معاملات ابھرے ۔ کانگریس کی قیادت والی ترقی پسند اتحاد حکومت کا دور دویم ایک طرح سے بد عنوانی کا دور بنا کر رکھ دیا گیا ۔ اس میں مارکیٹ فورسیز کا بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ تھا ۔ دہلی کا عام آدمی یہ سوال ضرور پوچھتا ہے کہ 4دسمبر 2013کو اچانک دہلی میں پھل ، سبزی ،انڈا ، گوشت جیسی روز کے استعمال کی چیزوں کی قیمت اچانک کیوں گر گئی ؟
بی جے پی وزارت عظمیٰ اور پارٹی قیادت دونوں کے گجرات منتقل ہو نے کی وجہ سے دہلی میں اچانک کمزور ہو ئی ۔ 10جنوری کی ریلی منعقد نہ ہوتی تو نریندر مودی اور امت شاہ کو اس کا اندازہ ہی نہ ہوتا کہ دہلی میں تنظیم کی سطح پر پارٹی کتنی کمزور ہے ۔ پارٹی میں نئی جان ڈالنے کے لئے بی جے پی نے کوششیں شروع کی اور ہر کوشش ایک غلطی کی شکل میں اس کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو تی چلی گئی ۔ دہلی اسمبلی کے وجود میں آ نے کے بعد سے کانگریس اور بی جے پی نے اقتدار آ پس میں اس طرح بانٹ رکھا تھا کہ کسی تیسری طاقت کی ضرورت محسوس ہو تی تھی ۔ دو الیکشن پہلے ایک بار ایسا لگا تھا کہ شاید مایاوتی کی بہو جن سماج پارٹی اس خلاء کو پر کر سکتی ہے یا تیسرا متبادل بنا سکتی ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ملی ۔ تیسرے متبادل کی کمی اروند کیجریوال کی پارٹی عام آدمی پارٹی نے پوری کی لیکن اب حالات ایسے بن رہے ہیں جن میں لگتا ہے کہ صرف عوامی تائید یا 70میں 67سیٹیں کسی پارٹی کو متحد رکھنے کی اہل نہیں ہے ۔
پارٹی کا اتحاد بنیادی طور سے نظریات کی بنا پر ہوتا ہے ۔کیجریوال کی پارٹی کے پاس عوام کے دکھ درد میں، ان کی مشکلات میں حصہ دار بننے کا جذبہ تو ہے لیکن کوئی ایسا نظریاتی بندھن نہیں جو اس کے تمام پارٹی لیڈروں کو آپس میں جوڑتا ہو ۔ بہت سے امور ہیں جن پر عام آدمی پارٹی کا موقف واضح نہیں ہے ۔ ابھی ضرورت اس بات کی تھی کی پارٹی اپنی میٹنگوں میں نظریہ سازی کا کام کرتی ہے ۔ ہندوستان ، ہندو تو ، ہندو ، سیکولرزم ، سوشلزم کی سمجھ پکی کرتی ۔ کشمیر کے سلسلے میں، کیرالہ کے سلسلے میں ،تقررات کے سلسلے میں ، بر طرفی کے سلسلے میں اس کا ایک موقف ہو تا ۔ مودی سرکار آ نے کے بعد کے 300دنوں میں جس طرح کی کھلم کھلا فرقہ واریت اپنا ننگا رقص کرتی رہی ہے اس کے سلسلے میں کیجریوال کا موقف سامنے نہیں آ یا ہے ۔ عام آدمی پارٹی اقلیتوں کے تحفظ ، مذہبی اور لسانی گروپوں کی ترقی کے بارے میں بھی کچھ بول نہیں پائی ہے ۔ وہ جو ایک پورا چہرہ ابھرتا ہے وہ ابھی نہیں ابھرا ہے ۔ بد عنوانی واحد موضوع نہیں ہے جس کے سلسلے میں ایک بڑا موقف اختیار کر کے حکومت کا کام کاج چلایا جا ئے ۔ اس کے علاوہ بد عنوانی ہندوستانی معاشرے کی ذہنیت اور فکر و عمل میں اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ اس کو ختم کر نا آ سان بھی نہیں ہے ۔ جہاں پورا سسٹم یعنی نظام بد عنوانی میں گلے گلے ڈوبا ہو وہاں بد عنوانی کے خلاف تحریک کے دو چار برسوں میں کامیاب ہو جا نے کا کوئی یقین نہیں ہوتا ۔ ضروری یہ ہے کہ بد عنوانی کے خلاف جنگ جنتر منتر پر اور پولنگ بوتھوں میں لڑنے سے زیادہ بچوں کے ذہنوں میں لڑی جا ئے ۔ کیونکہ اس معاشرے میں پلنے والا بچہ بد عنوانی کو عیب نہیں مانتا بلکہ وہ اسے اپنے والدین کا ہنر سمجھتا ہے جس سے وہ اپنی مقررہ اوقات سے باہر نکل کر بچوں کی پرورش و پرداخت اور ان کے عیش وآرام پر خرچ کرتے وقت پیشانی پر شکن نہیں لا تے ۔ بد عنوانی کے خلاف لڑائی میں جو بھیڑ انا ہزارے یا اروند کیجریوال کے ساتھ رہی ہے وہ بھیڑ انہیں خاندانوں کے نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کے والدین بد عنوانی کے ذریعہ وہ مملکت بنانے میں کامیاب ہو ئے جن کے بادشاہ ہو نے کے جذبے سے سرشار نوجوان نسل سماج سے اپنا مکالمہ پوری طاقت کے ساتھ کر رہی ہے ۔ عام آدمی پارٹی کو اب ایک بد عنوانی مخالف تنظیم سے آگے بڑھ کر حکمران پارٹی کی حیثیت سے اپنے نظریات طے کرنے ہیں اور اپنی ترجیحات طے کرنی ہے اور اس عمل میں پوری پارٹی کے اندر بحث ومباحثہ سے جو ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو گی وہی پارٹی کوجو ڑ کے رکھے گی ۔ یہ بات عام آدمی پارٹی اس کے لیڈر اروند کیجریوال اور اس کے نظریہ ساز اذہان جس قدر جلد سمجھ لیں پارٹی کے لئے بہتر ہے ۔ بصورت دیگر ایک ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو سکتا ہے جس کی ذمہ داری کسی پر نہیں ہو گی لیکن جس کا نتیجہ سب کو بھوگنا ہوگا
دہلی کی ترقی پر اثر پڑنے کا اندیشہ
[اشہر ہاشمی]
اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی گو کہ آج ایک اہم سیاسی طاقت ہے اور اسمبلی میں صرف تین سیٹیں چھوڑ کر تمام سیٹیں اسی پارٹی کے نمائندوں سے بھری ہو ئی ہیں ۔ عام آدمی پارٹی نے دسمبر 2013میں پندرہ سال سے اقتدار میں جمی ہو ئی شیلا دکشت کی کانگریس کو کنارے لگا دیا تھا اور فروری 2015میں بی جے پی کی مسلسل فتوحات کا سلسلہ روک دیا ہے ۔ یعنی اس پارٹی کو عوامی تائید اس حد تک حاصل ہے کہ دہلی میں کسی اور سیاسی جماعت کے اثرات ہونے کے باوجود رائیگاں ہو جا تے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ دہلی سے بی جے پی کا صفایا ہو گیا ، یا کانگریس ختم ہو گئی ۔ لو ک سبھا کی ساتوں سیٹوں پر بی جے پی ہے ۔ چاروں میو نسپل کارپوریشن بی جے پی کے پاس ہے جن میں کانگریسی ممبر بھی ہے ۔ اس کے باوجود دہلی اسمبلی کا الیکشن بھر پور سے زیادہ کیجریوال کے ہاتھ میں آ یا ۔ عوامی تائید کی ایسی مثال کم ملتی ہے ۔ مغربی بنگال میں ایک دور تھا جب بایاں محاذ کی میٹنگ میں سی پی ایم ، سی پی آئی ، آ ر ایس پی اور فاروڈ بلاک کے لیڈران بیٹھ کر اس پر غور کر تے تھے کہ اس ریاست کی 42لوک سبھا سیٹوں میں سے چار سیٹیں بھی کانگریس کو کیوں ملیں ؟عام آدمی پارٹی میں اس پر غور نہیں ہوا کہ 70میں 3سیٹیں بی جے پی کیسے نکا ل لے گئی ؟ جشن منایا گیا ۔ جشن کا ہے کا ؟جیت کا ۔ عوامی تائید کا ۔ اقتدار میں آ نے کا ۔ استعفیٰ دے کر اسمبلی توڑنے اور آئینی بحران پیدا کرنے کے باوجود عوام کی طرف سے معافی کے ساتھ زیادہ بڑھی ہوئی تائید حاصل ہو نے کا ۔ بڑھے ہو ئے ووٹ فیصد کے سیٹوں میں تبدیل ہو نے کا ۔ جشن منانا بھی چاہئے تھا ۔
لیکن عام آدمی پارٹی صرف عوامی بھیڑ کے بل پر اقتدار میں بھی ہے اور اپنا کام بھی کر رہی ہے ۔ اروند کیجریوال کی پارٹی میں دہلی والوں سے جو وعدے کئے ہیں ان کو نبھانے کے لئے بہت پیسوں کی ضرورت ہو گی اور پیسوں کا حصول مرکز اور نیتی کمیشن کا محتاج ہے ۔ دہلی کا اپنا آمدنی کا ذریعہ ہے ۔ ریونیو ، ٹیکس اور دیگر طریقوں سے جو مالیات ریاست خود پیدا کرتی ہے وہ پیدا ہوتی رہے گی لیکن سبسڈی دینے یا قیمتیں کم کرنے کے لئے الگ سے راحت کی ضرورت ہے ۔ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے دباؤ میں آ کر ہندوستان کو مالی خسارہ کم کرنے کے لئے لا زمی طور پر جو اقدامات کر نے ہیں ان میں کھاد سے لے کر رسوئی گیس تک پر سے سبسڈی اٹھانے کے مرحلے سے گزرنا ہے ۔ یہ اقتصادی اصطلاحات منموہن سنگھ کے دور حکومت سے چل رہے ہیں ۔ ٹھیک سے دیکھا جا ئے تو ان اصطلاحات کا سلسلہ ڈاکٹر منمو ہن سنگھ نے 1991میں پی وی نرسمہا راو کی کا بینہ میں رہتے ہو ئے وزیر خزانہ کی حیثیت سے شروع کر دیا تھا ۔ بہت زیادہ عوامی مقبولیت پسندی کے مظاہرے کے باوجود ڈاکٹر سنگھ نے اقتصادی اصطلاحات کا سلسلہ نہیں روکا ۔ البتہ اسی کے ساتھ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور ادارہ جاتی غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے ہموار کئے ۔
شیلا دکشت حکومت کے آخری دنوں میں لازمی اشیاء کی قیمتیں اس قدر بڑھی تھیں کہ عوام سچ مچ پریشان ہو رہے تھے ۔ ٹھیک سے دیکھا جا ئے تو 2008میں کامن ویلتھ گیمس کے لئے انفرا اسٹرکچر تیار کرنے کے مرحلے کے ساتھ ہی دہلی میں مہنگائی دن دونی ترقی کر نے لگی ۔ ایک وقت ایسا بھی آ یا جب تقریبا ہر دن دہلی میں کسی نہ کسی لازمی شے ، یا خدمت کی قیمت بڑھانے کا سلسلہ جا ری رہا ۔ اسی کے ساتھ بد عنوانی کے معاملات ابھرے ۔ کانگریس کی قیادت والی ترقی پسند اتحاد حکومت کا دور دویم ایک طرح سے بد عنوانی کا دور بنا کر رکھ دیا گیا ۔ اس میں مارکیٹ فورسیز کا بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ تھا ۔ دہلی کا عام آدمی یہ سوال ضرور پوچھتا ہے کہ 4دسمبر 2013کو اچانک دہلی میں پھل ، سبزی ،انڈا ، گوشت جیسی روز کے استعمال کی چیزوں کی قیمت اچانک کیوں گر گئی ؟
بی جے پی وزارت عظمیٰ اور پارٹی قیادت دونوں کے گجرات منتقل ہو نے کی وجہ سے دہلی میں اچانک کمزور ہو ئی ۔ 10جنوری کی ریلی منعقد نہ ہوتی تو نریندر مودی اور امت شاہ کو اس کا اندازہ ہی نہ ہوتا کہ دہلی میں تنظیم کی سطح پر پارٹی کتنی کمزور ہے ۔ پارٹی میں نئی جان ڈالنے کے لئے بی جے پی نے کوششیں شروع کی اور ہر کوشش ایک غلطی کی شکل میں اس کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو تی چلی گئی ۔ دہلی اسمبلی کے وجود میں آ نے کے بعد سے کانگریس اور بی جے پی نے اقتدار آ پس میں اس طرح بانٹ رکھا تھا کہ کسی تیسری طاقت کی ضرورت محسوس ہو تی تھی ۔ دو الیکشن پہلے ایک بار ایسا لگا تھا کہ شاید مایاوتی کی بہو جن سماج پارٹی اس خلاء کو پر کر سکتی ہے یا تیسرا متبادل بنا سکتی ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ملی ۔ تیسرے متبادل کی کمی اروند کیجریوال کی پارٹی عام آدمی پارٹی نے پوری کی لیکن اب حالات ایسے بن رہے ہیں جن میں لگتا ہے کہ صرف عوامی تائید یا 70میں 67سیٹیں کسی پارٹی کو متحد رکھنے کی اہل نہیں ہے ۔
پارٹی کا اتحاد بنیادی طور سے نظریات کی بنا پر ہوتا ہے ۔کیجریوال کی پارٹی کے پاس عوام کے دکھ درد میں، ان کی مشکلات میں حصہ دار بننے کا جذبہ تو ہے لیکن کوئی ایسا نظریاتی بندھن نہیں جو اس کے تمام پارٹی لیڈروں کو آپس میں جوڑتا ہو ۔ بہت سے امور ہیں جن پر عام آدمی پارٹی کا موقف واضح نہیں ہے ۔ ابھی ضرورت اس بات کی تھی کی پارٹی اپنی میٹنگوں میں نظریہ سازی کا کام کرتی ہے ۔ ہندوستان ، ہندو تو ، ہندو ، سیکولرزم ، سوشلزم کی سمجھ پکی کرتی ۔ کشمیر کے سلسلے میں، کیرالہ کے سلسلے میں ،تقررات کے سلسلے میں ، بر طرفی کے سلسلے میں اس کا ایک موقف ہو تا ۔ مودی سرکار آ نے کے بعد کے 300دنوں میں جس طرح کی کھلم کھلا فرقہ واریت اپنا ننگا رقص کرتی رہی ہے اس کے سلسلے میں کیجریوال کا موقف سامنے نہیں آ یا ہے ۔ عام آدمی پارٹی اقلیتوں کے تحفظ ، مذہبی اور لسانی گروپوں کی ترقی کے بارے میں بھی کچھ بول نہیں پائی ہے ۔ وہ جو ایک پورا چہرہ ابھرتا ہے وہ ابھی نہیں ابھرا ہے ۔ بد عنوانی واحد موضوع نہیں ہے جس کے سلسلے میں ایک بڑا موقف اختیار کر کے حکومت کا کام کاج چلایا جا ئے ۔ اس کے علاوہ بد عنوانی ہندوستانی معاشرے کی ذہنیت اور فکر و عمل میں اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ اس کو ختم کر نا آ سان بھی نہیں ہے ۔ جہاں پورا سسٹم یعنی نظام بد عنوانی میں گلے گلے ڈوبا ہو وہاں بد عنوانی کے خلاف تحریک کے دو چار برسوں میں کامیاب ہو جا نے کا کوئی یقین نہیں ہوتا ۔ ضروری یہ ہے کہ بد عنوانی کے خلاف جنگ جنتر منتر پر اور پولنگ بوتھوں میں لڑنے سے زیادہ بچوں کے ذہنوں میں لڑی جا ئے ۔ کیونکہ اس معاشرے میں پلنے والا بچہ بد عنوانی کو عیب نہیں مانتا بلکہ وہ اسے اپنے والدین کا ہنر سمجھتا ہے جس سے وہ اپنی مقررہ اوقات سے باہر نکل کر بچوں کی پرورش و پرداخت اور ان کے عیش وآرام پر خرچ کرتے وقت پیشانی پر شکن نہیں لا تے ۔ بد عنوانی کے خلاف لڑائی میں جو بھیڑ انا ہزارے یا اروند کیجریوال کے ساتھ رہی ہے وہ بھیڑ انہیں خاندانوں کے نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کے والدین بد عنوانی کے ذریعہ وہ مملکت بنانے میں کامیاب ہو ئے جن کے بادشاہ ہو نے کے جذبے سے سرشار نوجوان نسل سماج سے اپنا مکالمہ پوری طاقت کے ساتھ کر رہی ہے ۔ عام آدمی پارٹی کو اب ایک بد عنوانی مخالف تنظیم سے آگے بڑھ کر حکمران پارٹی کی حیثیت سے اپنے نظریات طے کرنے ہیں اور اپنی ترجیحات طے کرنی ہے اور اس عمل میں پوری پارٹی کے اندر بحث ومباحثہ سے جو ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو گی وہی پارٹی کوجو ڑ کے رکھے گی ۔ یہ بات عام آدمی پارٹی اس کے لیڈر اروند کیجریوال اور اس کے نظریہ ساز اذہان جس قدر جلد سمجھ لیں پارٹی کے لئے بہتر ہے ۔ بصورت دیگر ایک ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو سکتا ہے جس کی ذمہ داری کسی پر نہیں ہو گی لیکن جس کا نتیجہ سب کو بھوگنا ہوگا